For Contact Us
Go to Contact Page
or
Mail:contact@makhdoomashraf.com
Cal:+91-9415721972

والدۂ محترمہ


آپ کی والدہ ماجدہ کا نام نامی حضرت سیدہ خدیجہ تھا، جن کا سلسلۂ نسب بنی سامان کے شاہی خاندان سے ملتا ہے، اور وہ خود حضرت سید احمد یسوی رحمتہ اللّٰه علیہ کی اولاد سے تھیں، نماز کی بڑی پابند تھیں، ان کی نماز تہجد کبھی قضا نہیں ہوتی تھی، اکثر نفل روزے رکھتیں ، تلاوتِ قرآن سے انھیں والہانہ لگاؤ تھا۔



حکوت سِمنانْ


تیسری صدی ہجری سامانی دور کے آغاز میں خاندانِ سامانیہ کے دوسرے بادشاہ احمد بن اسمعیل سامانی کے عہد میں یہ حکومت معرض وجود میں آئی، احمد سامانی خاندانِ سامانیہ کا وہ بادشاہ تھا جس کی حدودِ سلطنت سمرقند، بخارا، فرغانہ، ہرات، ماوراء النہر بلکہ خراسان اور ایران تک پھیلی ہوئی تھی، وہ عدل وانصاف، فضل وکمال، جاہ وجلال اور شان و شوکت میں خلفائے عباسیہ کا ہمسر سمجھا جاتا تھا۔
احمد سامانی نے شیخ محمود کے بیٹے سید تاج الدین نور بخشی کو اپنا وزیر بنایا ، جن کا سلسلۂ نسب چودہ واسطوں سے حضرت مولائے کائنات تک پہنچتا ہے، اور جن کی خاندان سامانیہ سے قرابتداری بھی تھی، اسی قرابتداری کی بنیاد پر اس ریاست کا قیام عمل میں آیا، لیکن اس حکومت کے قیام میں صرف قرابتداری ہی کا دخل نہیں تھا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس میں بادشاہ کی خاندان نبوت سے عقیدتمندی اور سادات نور بخشیہ کی روحانی پاکیزگی کا بھی بڑا دخل تھا۔
جب بخارا کے تخت کے لیے اسمٰعیل سامانی اور اس کے بھائی محمود سامانی میں تنازعہ ہوا اور جنگ کی نوبت آگئی تو اسمٰعیل کے امراء نے مشورہ دیا کہ محمود سے مصالحت کر لی جائے اس لیے کہ ہماری فوجی طاقت محمود کے مقابلے میں بہت کم ہے، اس وقت نظام الدین برمکی اس کے وزیر نے مشورہ دیا کہ وقت کے مشہور صوفی بزرگ حضرت سید محمود نور بخشی کی خدمت میں حاضر ہوکر ان سے کامیابی کے لیے دعا کی درخواست کی جائے۔ چنانچہ اسمعیل سامانی نے حضرت سیّد محمود نور بخشی کی بارگاہ میں مؤدبانہ حاضر ہوکر عرض مدعا کیا، حضرت نے اس کی کامیابی کے لیے دعا فرمائی اور وہ جنگ میں کامیاب ہوگیا۔
اسمعیل کے بعد اس کا بیٹا احمد سامانی تخت نشیں ہوا، اور اس نے شیخ محمود نور بخشی کےبیٹے سید تاج الدین بہلول نور بخشی کو جنھیں اس نے اپنا وزیر بنالیا تھا عراق اور خراسان کے کچھ حصّے بطور جاگیر عطا کیا اور یہ صوبے اپنے حدود اختیار سے خارج کردئے۔احمد بن اسمٰعیل کے بعد سیّد تاج الدین بہلول نے اپنی خود مختاری کا اعلان کردیا، اور اپنے نام سے سکّہ اور خطبہ جاری کیا ، شہر سمنان کو اپنا دارالحکومت بنایا، اور سمنان کے پہلے سلطان ہوئے، اور پچاس سال حکومت کیا، یہ ”قدیم تاریخی شہر سمنان“ ایک معمولی قصبہ کی حیثیت سے حکومتِ ایران کے اندر شہر اصفہان سے دوسو میل دوری پر بحیرۂ کیپین سے تقریباً سو میل شمال میں واقع ہے، اور طول البلد ۵۳/ اور عرض البلد ۳۵/ کے درمیان ہے۔



Islamic SMS/Messages/Post

For this type of post


Go to Blogs